Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • خطبۂ غدیر خُم اور اہل ِ بیت کے حقوق قسط نمبر :(۷)

    ۳۔ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کا اختصاص:
    مومنوں کی مائیں قراردیا ہے ۔چنانچہ فرمایا :
    {النَّبِيُّ أَوْلَي بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ}
    ’’یہ نبی مومنوں پر ان کی جانوں سے زیادہ حق رکھنے والا ہے اور اس کی بیویاں ان کی مائیں ہیں ‘‘[الاحزاب:۶]
    مسلمان اگر کسی کو منہ بولی ماں کہتا ہے تو وہ احترام کے علاوہ کسی طور پر اس کی ماں نہیں ، لیکن رسول اللہ ﷺ کی بیویاں تمام مومنوں کی مائیں ہیں اور ان کی عزت و تکریم کے علاوہ آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد ان سے نکاح بھی جائز نہیں ، جیسا کہ سورۃ الاحزاب ہی میں فرمایا:
    {وَلَا أَنْ تَنْكِحُوا أَزْوَاجَهُ مِنْ بَعْدِهِ أَبَدًا إِنَّ ذَلِكُمْ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ عَظِيمًا }
    ’’اور نہ یہ کہ اس کے بعد کبھی اس کی بیویوں سے نکاح کرو، بے شک یہ بات ہمیشہ سے اللہ کے نزدیک بہت بڑی ہے ‘‘[الاحزاب:۵۳]
    یعنی یہ بہت بڑا گناہ ہے کیوں کہ نبی ﷺ کی بیویاں مومنوں کی مائیں ہیں ، کسی کے عقد میں آجانے کے بعد کیا ان کا کماحقہ احترام رہ سکتا ہے ؟ ان سے نکاح کی ممانعت کی اور بھی حکمتیں ہیں ، مگر اس کی تفصیل یہاں طوالت کا باعث ہوگی۔
    جنگ جمل میں حضرت طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما کے ساتھ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بھی شامل تھیں ۔ جنگ ختم ہوئی ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے ہودج میں تھیں، حضرت علی رضی اللہ عنہ آئے ، سلام کہا اور فرمایا :
    ’’كيف انت يا امه‘‘ ’’اماں جان ! آپ کا کیا حال ہے ؟‘‘
    فرمایا: ٹھیک ہوں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ آپ کی بخشش فرمائے ۔
    بعض نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا : مال غنیمت تقسیم کیا جائے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس سے انکار کردیا ۔ اس پر انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ پر طعن و تشنیع کی اور کہا : ہمارے لئے ان کا خون حلال ہے تو ان کے مال حلال کیوں نہیں ؟ یہ بات حضرت علی رضی اللہ عنہ تک پہنچی تو فرمایا :
    ’’ایکم یحب ان تصبر ام المومنین فی سھمہ‘‘
    ’’تم میں سے کون چاہتا ہے کہ ام المومنین رضی اللہ عنہن اس کے حصے میں آئیں ‘‘؟
    تو سب خاموش ہوگئے ۔
    جنگ و جدال میں فریقین کے جس قدر افراد شہید ہوئے ، سب کی نماز جنازہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے پڑھائی ، پھر بصرہ تشریف لے گئے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جس گھر میں ٹھہری ہوئی تھیں ، حضرت علی رضی اللہ عنہ وہاں تشریف لے گئے ۔ملنے کی اجازت طلب کی ، انہوں نے اجازت دی تو انہیں سلام عرض کیا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے مرحبا کہا ۔ اور جب انہوں نے بصرہ سے جانے کا ارادہ کیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے سواری ، زادراہ اور دیگر ضرورت کا سامان بھیجا اور ساتھ اہل بصرہ کی چالیس معروف خواتین کو اور ان کے بھائی حضرت محمد بن ابو بکر رضی اللہ عنہ کو بھیجا اور کئی میل تک ان کے ہمراہ چلے اور فرمایا : دنیا اورآخرت میں یہ رسول اللہ ﷺ کی بیوی ہیں ۔[البدایۃ والنھایۃ: ۷؍۲۴۴، ۲۴۵، ملخصاً]
    اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نزدیک ام المومنین رضی اللہ عنہا کی قدر و منزلت کیا تھی ۔ وہ ہمیشہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عظمت کے معترف رہے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی ان کا آل رسول ﷺ میں سے ہونا بیان کرتی تھیں، چنانچہ صحیح مسلم میں ہے کہ انہوں نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ سیاہ بالوں سے بنی ہوئی دھاری دار چادر میں نکلے ۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ آئے تو انہیں چادر میں لے لیا ، پھر اسی طرح حضرت حسین ، حضرت فاطمہ ، حضرت علی رضی اللہ عنہن آئے تو انہیں چادرکے نیچے لے لیا ، پھر فرمایا :
    ’’إِنَّمَا يُرِيدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا‘‘[صحیح مسلم : ۲۴۲۴]
    کئی مواقع پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سائل نے فتویٰ طلب کیا تو انہوں نے اسے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں جانے کا حکم فرمایا ۔
    اس لئے یہ باور کرانا کہ دونوں کے دلوں میں باہمی خلش تھی ، روافض کا پراپیگنڈہ ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ۔ بلکہ حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : ’’تیرے اور عائشہ کے مابین اختلاف ہوگا ‘‘۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : تب تو میں بہت بد نصیب ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا :’’نہیں ، جب ایسا ہو تو انہیں ان کے ٹھکانے پر پہنچا دینا ‘‘۔[احمد ، البزار]
    حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کی سند کو حسن قراردیا ہے ۔[فتح الباری :۱۳؍۵۵]علامہ ہیثمی نے کہا کہ اس کے راوی ثقہ ہیں ۔[مجمع :۷؍۲۳۴]
    جب ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن حج کے لئے جاتی تھیں تو حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ان کا سار ا انتظام انصرام کرتے ۔ طیالسہ کے بنے ہودج تیار کرواتے اور انہیں ایسی وادی میں ٹھہراتے جو گزر گاہ نہ ہوتی ۔[الاصابۃ :۴؍ ۱۷۷]
    حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک طویل روایت میں مروی ہے کہ مرض الموت میں رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بلایا ۔ وہ تشریف لائیں تو آنحضرت ﷺنے انہیں اپنے پا س بٹھایا اور ان سے سرگوشی کی تو وہ رونے لگیں اور بہت روئیں ۔ جب آپ ﷺ نے انہیں غم ناک دیکھا تو دوبارہ ان سے سرگوشی کی تو وہ ہنسنے لگیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : میں نے بعد میں ان سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ نے آپ سے مخفی بات کہی تو آپ رونے لگی تھیں ، وہ کیا بات تھی؟ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : میں رسول اللہ ﷺ کے راز کا اظہار نہیں کرنا چاہتی ۔ جب آنحضرت ﷺ کا انتقال ہوگیا تو میں نے فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کہا :
    ’’عزمت عليك بحالي عليك من الحق ‘‘
    ’’میں تمہیں قسم دیتا ہوں اس حق کی بنا پر جو میرا تم پر ہے ‘‘۔
    کہ رسول اللہ ﷺ نے تم سے کیا بات کی تھی؟ انہوں نے کہا : ہاں اب بتلاتی ہوں، چنانچہ انہو ںنے مجھے بتلایا کہ پہلی بات جو سرگوشی کی تھی وہ یہ تھی کہ آپ ﷺ نے بتلایا کہ ’’جبریل علیہ السلام ہر سال مجھ سے قرآن مجید کاایک بار دور کرتے تھے ، اس سال دو باردور کیا ہے اور میں یہی سمجھتا ہوں کہ میرا وقت قریب آگیا ہے۔ اے فاطمہ ! اللہ سے ڈرنا اور صبر کرنا ۔ میں تیرے لئے بہتر پیش رو ہوں۔ ‘‘ تو میں رونے لگی ۔جب آپ نے مجھے روتے دیکھا تو دوسری بات یہ سرگوشی کی :’’اے فاطمہ ! کیا تو اس پر راضی نہیں کہ تو تمام مومن عورتوں کی سردار بنے !‘‘ یا یہ فرمایا : ’’ اس امت کی عورتوں کی سردار بنے !‘‘ تو میں ہنسنے لگی ۔[صحیح بخاری : رقم:۳۶۲۳،۳۶۲۴،۶۲۸۵، ۶۲۸۶صحیح مسلم :وغیرہ]
    غور فرمائیے کہ وہ کیا حق تھا جسے جتلاتے ہوئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو قسم دلائی ؟ ظاہر ہے کہ وہ ان کے ماں ہونے کا حق تھا جسے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے تسلیم کیا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان کی اس عظیم فضیلت کو قیامت تک کے لئے محفوظ کردیا ۔
    صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اوردیگر اہل بیت :
    صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے ہمیشہ آنحضرت ﷺ کی آل اولاد کا احترام کیا اور ان کے مقام و مرتبے کا اعتراف کیا ۔
    (۱) … چنانچہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے :
    ’’وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ،لَقَرَابَةُ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ أَصِلَ مِنْ قَرَابَتِيْ‘‘
    ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، رسول اللہ ﷺ کے قرابت داروں سے اچھا سلوک کرنا مجھے اپنے قرابت داروں کے ساتھ سلوک کرنے سے زیادہ پسند ہے ‘‘[صحیح البخاری :رقم:۳۷۱۲،وغیرہ]
    امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے ’’باب قرابۃ رسول اللّٰہ ﷺ ‘‘ میں ذکر کیا ہے ۔
    (۲) …حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
    ’’ارْقُبُوا مُحَمَّدًا صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَهْلِ بَيْتِهِ‘‘
    ’’حضرت محمد ﷺ کا خیال اور لحاظ آپ کے اہل بیت میں رکھو‘‘[صحیح البخاری :رقم :۳۷۱۳،۳۷۵۱]
    یعنی ان کی تعظیم کرتے رہو اور انہیں تکلیف نہ پہنچاؤ۔ ان کی طرف کسی بری بات کی نسبت نہ کرو۔ جیسے آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ والدین کی وفات کے بعد ان کے دوستوں سے حسن سلوک والدین کے ساتھ صلہ رحمی اور بہت بڑی نیکی ہے ۔ اسی بنا پر غالباً حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جو عزت و احترام ہم آنحضرت ﷺ کا کرتے تھے ، اب اس کا لحاظ ان کے اہل بیت میں رکھو۔
    (۳) … حضرت عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میںنے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو اٹھایا ہوا ہے اور فرمارہے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے مشابہ ہیں ، علی رضی اللہ عنہ کے مشابہ نہیں ۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ ہنس رہے تھے۔[صحیح البخاری:رقم :۳۷۵۰]
    (۴) …جب حضرت عباس رضی اللہ عنہ مسلمان ہوئے تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
    ’’فواللّٰه لاسلامك يوم أسلمت كان أحب الي من اسلام الخطاب لو أسلم ، ما بي الا قد عرفت أن اسلامك كان أحب الي رسول اللّٰه ﷺ من اسلام الخطاب لو أسلم ‘‘
    ’’اللہ کی قسم جس روز آپ اسلام لائے تھے ، آپ کا اسلام قبول کرنا مجھے زیادہ محبوب تھا میرے والد خطاب کے اسلام لانے سے اگر وہ ایمان لے آتے، اس لیے کہ میں جانتا ہوں آپ کا اسلام لانا رسول اللہ ﷺ کو زیادہ محبوب تھا خطاب کے اسلام لانے سے اگر وہ اسلام لے آتے ‘‘۔[سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ:رقم:۳۳۴۱]
    عہد فاروقی میں قحط پڑتا تو اسی ناطے سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو صلاۃ استسقایا دعائے استقاکے لئے کہتے اور فرماتے :
    ’’اَللّٰهُمَّ إِنَّا كُنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّنَا فَتَسْقِينَا، وَإِنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِعَمِّ نَبِيِّنَا فَاسْقِنَا، قَالَ: فَيُسْقَوْنَ‘‘
    ’’اے اللہ ! (پہلے) ہم اپنے نبی ﷺ کو تیرے لئے وسیلہ بناتے تھے تو تو ہمیں پانی پلادیتا تھا ، اب ہم اپنے نبی کے چچا کو تیرے لیے وسیلہ بناتے ہیں ، ہم کو پانی پلا۔ تو اللہ تعالیٰ پانی برسا دیتا تھا ‘‘[صحیح البخاری:رقم:۱۰۱۰،۳۷۱۰]
    محل غور یہ بات ہے کہ خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت عثمان حضرت علی اور دیگر عشرۂ مبشرہ رضی اللہ عنہم حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے بہر نوع افضل تھے ، لیکن بایں ہمہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں بارش کے لئے وسیلہ بنایا ، اس لئے کہ وہ آنحضرت ﷺ کے چچا تھے ، بلکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پہلے خطبہ ارشاد فرمایا اور کہا کہ رسول اللہ ﷺ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو اسی طرح سمجھتے تھے جیسے بیٹا باپ کو سمجھتا ہے ، اس لیے لوگو! رسول اللہ ﷺ کی اقتدا کرو ان کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے بارے میں اور انہیں وسیلہ بناؤ۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایاہے :
    ’’عم الرجل صنو أبيه‘‘
    ’’آدمی کا چچا باپ کے مانند ہے ‘‘[سنن ترمذی : رقم: ۳۷۶۱،وغیرہ]
    حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے وہ دعا بھی ذکر کی ہے جو اس وقت حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کی تھی ۔ دیکھئے :[فتح الباری :۲؍۴۹۷]
    حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسی حدیث کی شرح کے آخر میں لکھا ہے :
    ’’ویفاد من قصۃ العباس استحباب الاستشفاع باھل الخیر والصلاۃ واھل بیت النبوۃ‘‘
    ’’حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے اس قصے سے یہ فائدہ حاصل ہوتاہے کہ اہل خیر اور نیک لوگوں سے اور نبی کریم ﷺ کے اہل بیت سے دعا کروانا مستحب ہے ‘‘
    اسی طرح شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے دعا کرانے کا واقعہ ذکر کرکے لکھا ہے :
    ’’ولهٰذا قال الفقهاء: يستحب الاستسقاء بأهل الخير والدين ، والافضل أن يكونوا من أهل بيت النبى ﷺ ‘‘
    ’’اسی لئے فقہائے کرام نے فرمایا ہے کہ اہل خیر اور اہل دین سے بارش کی دعا کروانا مستحب ہے اور افضل یہ ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ کے اہل بیت میں سے ہوں‘‘[اقتضاء الصراط المستقیم :ص:۳۹۸، طبع الثانیۃ:۱۹۵۰ء]
    ایک عجیب قصہ ہے کہ شیخ حمزہ بن قاسم بن عبد العزیز بن عبد اللہ بن عبید اللہ بن عباس بن محمد بن علی بن عبد اللہ بن عباس بن عبد المطلب (وفات:۳۳۵ھ) سے دعائے استقاء کے لیے کہا گیا تو انہوں نے اپنی داڑھی کو پکڑا اور اللہ تعالیٰ سے یوں دیا کی :
    ’’اللهم اني من ولد ذلك الرجل الذى اشقي بشيبته عمر بن الخطاب رضى الله عنه ، فسقوا، اللهم فاسقنا، فمازال يردد و يتوسل بهذا الوسيلة حتي سقو‘‘۔
    ’’اے اللہ ! میں اس شخص کی اولاد میں سے ہوں جس کے بڑھاپے کی بنا پر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بارش کی دعا کرائی تھی تو انہیں پانی مل گیا تھا ۔ اے اللہ ! ہمیں بھی پانی پلا ۔ یہی دعا بار بار وہ دہراتے رہے اور یہ وسیلہ بناتے رہے ، تاآنکہ انہیں پانی مل گیا‘‘[تاریخ بغداد:۸؍۱۸۲، کرامات الاولیاء، شرح اصول اعتقاد أھل السنۃ للالکائی:۹؍۱۴۶]
    اس لئے دوسرے اہل خیر کے ہوتے ہوئے بھی اہل بیت سے دعا کروانا افضل ہے ، جیسا کہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے لکھا ہے ۔ اور یہ اہل بیت کی بہت بڑی فضیلت ہے ۔ اس کی صالحیت اگر چہ دوسرے صالحین اور اہل دین سے کم تر ہی کیوں نہ ہو، مگرآنحضرت ﷺ کی قرابت داری کا جو شرف اسے حاصل ہے ، وہ سب پر بھاری ہے ۔ حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
    ’’إِنَّ اللّٰهَ اصْطَفَي كِنَانَةَ مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيلَ، وَاصْطَفَي قُرَيْشًا مِنْ كِنَانَةَ، وَاصْطَفَي مِنْ قُرَيْشٍ بَنِي هَاشِمٍ، وَاصْطَفَانِي مِنْ بَنِي هَاشِمٍ‘‘
    ’’بے شک اللہ تعالیٰ نے اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے کنانہ کو منتخب کیا ، کنانہ سے قریش کو منتخب کیا ، قریش سے بنو ہاشم کو منتخب کیا اور بنو ہاشم سے میرا انتخاب کیا ‘‘[صحیح مسلم :۲۲۷۶]
    یاد رہے کہ رسول اللہ ﷺ سے ’’عدنان‘‘ تک کا نسب نامہ محدثین اور اصحاب سیر کے ہاں متفق علیہ ہے ۔ ’’عدنان‘‘ سے اوپر حضرت ابراہیم علیہ السلام تک کا نسب نامہ مختلف فیہ ہے ۔
    آنحضرت ﷺ اور عدنان کے مابین بیس واسطے ہیں اور اکیس پر عدنان ہیں ، پھر آنحضرت ﷺ اور کنانہ بن خزیمہ کے مابین تیرہ واسطے ہیں ، پھر آنحضرت ﷺ اور قریش تک دس واسطے ہیں ۔’’قریش‘‘ دراصل لقب ہے ، اصل نام ’’فہر ‘‘ ہے ۔پھر آنحضرت ﷺ اور ہاشم کے درمیان دو واسطے ہیں : محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب بن ہاشم ۔ہاشم بھی لقب ہے ، اصل نام عمر و بن عبد مناف ہے ۔ کنانہ ،قریش ،ہاشم کی تاریخ میں کیا خصوصیات و خدمات تھیں جن کی بنا پر ان کا انتخاب کیا گیا ، یہ جاننے کے لئے شائقین سیرت انسائیکلوپیڈیا (طبع دار السلام ،لاہور) کی جلد دوم ملاحظہ فرمائیں ۔
    مقصد یہ تھا حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے رسول اللہ ﷺ کا نسب سب سے افضل و اعلیٰ ہے ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جبریل علیہ السلام سے نقل کیا کہ انہوں نے فرمایا :
    ’’قلبت مشارق الارض و مغاربھا فلم أررجلاً افضل من محمد ﷺ و لم أرینا افضل من بیت بنی ھاشم ‘‘
    ’’میں زمین کے مشرق و مغرب میں پھر ا ہوں، میں نے محمد ﷺ سے افضل کسی شخص کو نہیں دیکھا اور بنو ہاشم کے گھر سے کسی کا گھر افضل نہیں دیکھا‘‘[المعجم الاوسط للطبرانی :رقم:۶۲۸۱، دلائل النبوۃ للبھقی]
    اس کی سند میں موسیٰ بن عبدیہ الزبدی ہے ، علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ وہ ضعیف ہے ۔ (مجمع الزوائد:۸ ؍ ۲۱۶)مگر علامہ سیو طی رحمہ اللہ نے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی ’’امالی ‘‘ کے حوالے سے لکھا ہے :
    ’’لوائح الصحۃ ظاھرۃ‘‘
    ’’اس کے صحیح ہونے کے اشارے ظاہر ہیں‘‘[التعظیم والمنۃ:ص:۴۹]
    گویا صحیح مسلم کی حدیث اس کی موید ہے ۔ بہر حال آنحضرت ﷺ کا نسب اور آپ کی قرابت داری بہت بڑا شرف و فضل ہے ۔آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے :
    ’’كل سبب و نسب منقطع يوم القيامة الا سببي و نسبي‘‘
    ’’میرے واسطے اور میرے نسب کے علاوہ قیامت کے روز سب واسطے اور نسب ختم ہو جائیں گے ‘‘[مستدرک حاکم :۳؍۱۴۲،۱۵۸،وغیرہ ،الصحیحۃ:رقم:۲۰۳۶]
    یہی وہ حدیث ہے جس کی بنا پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ان کی صاحبزادی حضرت ام کلثوم سے نکاح کا مطالبہ کیا تھا ، تاکہ میرا تعلق و واسطہ قیامت کے روز بھی رسول اللہ ﷺ سے قائم رہے ۔ (البدایہ:۳؍۸۱) چنانچہ حضرت علی بن حسین زین العابدین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ان کی بیٹی ام کلثوم کا نکاح طلب کیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ میں نے اپنے بھائی جعفر کے بیٹے عبد اللہ کے لیے یہ رشتہ محفوظ کیا ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اس کا رشتہ مجھ سے کردیں، اللہ کی قسم میں اس کی ایسی حفاظت رکھوں گا کہ کوئی دوسرا ایسی حفاظت نہیں رکھ سکے گا ۔ اس پر حضر ت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ام کلثوم کا نکاح ان سے کردیا ۔حضرت عمررضی اللہ عنہ (اسی خوشی میں ) مہاجرین کے پاس گئے اور فرمایا : تم مجھے مبارک باد کیوں نہیں دیتے ؟ انہوں نے پوچھا : کس چیز کی مبارک دیں؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ام کلثوم بنت علی ، یعنی بنت فاطمہ بنت رسول اللہ ﷺ سے نکاح کی ۔ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سناہے کہ ہر نسب و سبب قیامت کے دن منقطع ہو جائیں گے سوائے میرے نسب و سبب کے ۔[مستدرک حاکم :۳؍۱۴۲، سنن سعید بن منصور:۳؍۱۳۰، وغیرہ]
    کتب انساب میں بھی اس نکاح کا ذکر ہے ۔ملاحظہ ہو:[ نسب قریش ، کتاب المحبر، جھرۃ انساب العرب ، انساب الاشراف وغیرہ]بلکہ شیعوں کی معتبر کتب الکافی ، الاستبصار ، تہذیب الاحکام وغیرہ میں بھی اس نکاح کا ذکر ہے۔ خطیب الاسلام مولانا محمد صدیق فیصل آبادی رحمہ اللہ نے اس پر ایک مستقل کتاب ’’ام کلثوم بنت علی فاروق اعظم کے نکاح میں ‘‘ کے نام سے لکھی اور بحث کا حق ادا کردیا ۔
    اس ضروری تفصیل کا مقصد بس اتنا ہے کہ ایک تو اس سے آنحضرت ﷺ کے نسبت کی عظمت واضح ہوتی ہے اور دوسری یہ کہ اس میں حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو اس نسب سے جوڑنے کا داعیہ اور آپ کے قرابت داروں کی عزت افزائی اور قدردانی کا واضح ثبوت ہے ۔
    حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے آنحضرت ﷺ کی قرابت داری کا احساس رکھتے ہوئے جب مال غنیمت اور مال فے سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے حصے مقرر کئے تو اہل بدر کے لیے پانچ ہزاردرہم مقرر کیے ۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی پانچ ہزار دیئے گئے اور ان کے ساتھ حضرات حسنین رضی اللہ عنہما کو بھی پانچ پانچ ہزاردیئے۔ حالانکہ وہ تو غزوۂ بدر کے موقع پر پیدا ہی نہیں ہوئے تھے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایسا کیوں کیا ، راوی کا بیان ہے :
    ’’لمكانهما من رسول اللّٰه ﷺ‘‘
    ’’ان دونوں کے اُس مرتبے کی بنا پر جو انہیں رسول اللہ ﷺ کی وجہ سے حاصل تھا‘‘
    علاوہ ازیں ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے لیے بارہ بارہ ہزار درہم اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے لیے بھی بارہ ہزار درہم حصہ مقرر ہوا۔ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کے لیے چار ہزار ، مگر اپنے بیٹے حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کے لیے تین ہزار درہم مقرر کیے ۔ حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : اباجان! اسامہ رضی اللہ عنہ کو ایک ہزار مجھ سے زیادہ کیوں؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اسامہ رضی اللہ عنہ کے والد تیرے والد سے زیادہ رسول اللہ ﷺ کو محبوب تھے۔[السن الکبریٰ للبیھقی: ۶؍۳۵۰، کتاب الاموال لابی عبید :ص:۲۲۴، السیر:۳؍۱۹۱ وغیرہ]
    اندازہ کیجئے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی نظر میں آنحضرت ﷺ سے قرابت داری کا کتنا احساس تھا۔
    اسی نوعیت کی ایک بات یہ بھی دیکھئے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ منبر پر تشریف فرما تھے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ آئے اور کہنے لگے : میرے باپ کے منبر سے اتریے اور اپنے باپ کے منبر پر جائیے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میرے باپ کا کوئی منبر نہیں ۔ پھر انہوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو پکڑا اور اپنے پاس بٹھالیا اور جب منبر سے اترے تو انہیں بھی اپنے ہمراہ گھر لے گئے ، پھر پوچھا : یہ بات تمہیں کس نے سکھلائی ہے ؟ انہوں نے کہا : اللہ کی قسم ، کسی نے نہیں سکھلائی ۔ پھرحضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : بیٹا کاش تم ہمارے پاس آتے جاتے رہو۔
    چنانچہ ایک روز حضرت حسین رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہاں تشریف لے گئے ، مگر وہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے محو گفتگو تھے اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بھی دروازے پر کھڑے تھے۔ انہوں نے اجازت طلب کی ، مگر انہیں اجازت نہ ملی تو وہ واپس چلے گئے ، چنانچہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ بھی ان کے ساتھ واپس چلے گئے ، پھر اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان سے ملے تو پوچھا:’’میں نے تمہیں دیکھا نہیں (یعنی کبھی ملے نہیں)‘‘۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے کہا : امیر المومنین ! میں آیا تھا ، آپ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ مصروف گفتگو تھے۔ عبد اللہ رضی اللہ عنہ دروازے پر تھے ، وہ واپس گئے تو میں بھی ان کے ساتھ واپس چلا گیا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
    ’’انت احق بالاذن من ابن عمر، وانما أنت ما تري فى رؤوسنا اللّٰه ، ثم انتم ‘‘
    ’’تم عمر کے بیٹے (عبد اللہ ) سے زیادہ اجازت کے حق دار ہو(یعنی تمہیں اجازت کی ضرورت نہ تھی)اور بلاشبہ جو ہمارے سروں پر (عزت کا تاج) دیکھ رہے ہو، یہ اللہ کی طرف سے ہے ، پھر تم اہل بیت کی جانب سے ہے (یعنی اللہ تعالیٰ کے بعد یہ سب سرفرازی تمہارے گھرانے کی برکت سے ہے )‘‘[تاریخ بغداد:۱؍۱۴۱، تاریخ الثقات للعجلی مختصرا،ص:۱۹۹، ابن عساکر:۱۴؍۱۷۵،السیر:۳؍۲۸۵،تھذیب :۲؍۳۴۷،الاصابۃ:۲؍۱۵]
    حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے ۔ امام عجلی رحمہ اللہ نے صحیح سند سے اسے مختصرا ًذکر کیا ہے جس میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھے یہ بات کسی نے نہیں سکھلائی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
    ’’منبر ابيك واللّٰه ، منبر ابيك واللّٰه‘‘
    ’’اللہ کی قسم منبر تمہارے ابا جان کا ہے ، اللہ کی قسم منبر تمہارے ابا جان کا ہے‘‘
    اس قصے کا نتیجہ کیا ہے ، یہی ناں کہ بیٹے کو تو باپ کے گھر میں آنے کی اجازت چاہئے ، مگر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے لیے یہ پابندی نہیں ۔ وہ جب آئیں بسم اللہ ۔ یہ اس لیے کہ آنحضرت ﷺ کے بیٹے ہیں ۔
    یادرہے کہ یہ ساراواقعہ دراصل حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی آپ بیتی ہے ، ہم نے تفہیم کے طور پر اسے ایک قصے کی صورت میں نقل کیا ہے ۔
    جاری ہے ……

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings